LESSON:1 The Saviour Of Mankind
Translation of the Text
![](https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjFkwEKES5uXz34Xypt35oZr8X9PJaGoo3E5Tll_VfGGbEM7aIzAL4eUr094pYShQvzJy1j4mOopXNf-4QOpBxOOgFHF9f9ppg674zrRe1QoBI_HsjYx-o2WFqIDqmWZGSOh1iI9rfX4ieF/w281-h301/image.png)
انسانیت کا نجات دہندہ
Words. | Synonyms. | Antonym. | Meaning. |
Piety | Piousness. Devoutness | Wickedness | پرہیز گاری |
Individual | Entity. Personage | Collective | انفرادی |
Seek | Look
for. Search for | ------------- | تلاش |
Guidance | Supervision, Control, Assistance | Distract | رہنمائی |
Ideals | Principles. Ethics | ------------- | معیار |
Equitable | Fair,
Impartial, Unbiased | Unfair | منصفانہ |
Reputation | Status, Repute, Character. | ------------- | شہرت |
Dispute | Disagreement, Quarrel, Clash | Agreement | جھگڑا۔ متنازعہ |
Conflict | Difference, Variance, Inconsistency | Congenial | جھگڑا۔ ٹکراو |
Intercede | Intervene, Mediate, | Remaining aloof | مداخلت کرنا۔ سفارش کرنا |
Furiously | Angrily, wrathfully, | Pleasant | شدید غصہ سے |
Sermon | Lecture, Oration, Discourse. | ------------- | خطبہ |
Ancestors | Forefathers | ------------- | آباو اجداد |
Exchange | Barter, Substitute. | ------------- | تبادلہ |
Revenge | Avenge, Vengeance, Reprisal | Friendliness | بدلہ ۔انتقام |
Decline | Reject, Regret | Accept | انکار۔ زوال |
Interfere | Hinder, Obstruct, Impede | Aloofness | مداخلت |
Circumstances | Situation, Condition | ------------- | حالات |
1: Arabia is a land of unparalleled charm and beauty, with its trackless deserts of sand dunes in the dazzling rays of a tropical sun. Its starry sky has excited the imaginations of poets and travelers. It Was in this land that the Holy Prophet ﷺ was born in the city of Makkah which is about fifty miles from the Red sea.
1۔ عرب ، دہکتے سورج کی چمکدار شعاعوں میں ،ریت کے ٹیلوں والے گمنام صحراوں کے ساتھ ! بے مثال دل کشی اور خوبصورتی کی حامل سر زمین ہے۔اس کے ستاروں بھرے آسمان نےشاعروں اور سیاحوں کے خیالات کو ابھارا ۔ یہ وہی سرزمین ہے جس کے شہر مکہ میں نبی پاک صلى الله عليه وسلم پیدا ہوئے تھے۔ جو کہ بحیرہ احمر سے تقریباً پچاس میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔
2 ۔ عرب کے لوگ بڑی شاندار یاداشت کے مالک اور بڑے خوش گفتار لوگ تھے۔ اُن کی خوش گفتاری اور یاداشت کا تاثر اُن کی شاعری سے ملتا ہے۔ہر سال "عکاظ" کے مقام پر شاعری کے مقابلوں کے لیے ایک میلہ منعقد ہوتا تھا۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ حماد نے خلیفہ ولید بن یزید سے کہا کہ"میں آپ کو حروف تہجی کے ہر حرف کے بدلے بغیر چھوٹے ٹکڑوں کو گنتی کیے، ایک سو طویل نظمیں سنا سکتا ہوں،جو اشاعت اسلام سے پہلے مخصوص شاعروں نے لکھی ہیں۔ یہ کوئی معمولی معجزہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حتمی پیغام کو پھیلانے اور اپنے کلام)قرآن پاک( کو محفوظ کرنے کے لیے عربی زبان کا انتخاب کیا ۔
3. In the fifth and sixth centuries, mankind
stood on the verge of chaos. It seemed that the civilization which had taken four thousand
years to grow had started crumbling. At
this point in time, Allah
Almighty raised a prophet from among themselves who was to lift humanity from
their ignorance into the light
of faith.
3 ۔ پانچویں اور چھٹی صدی میں انسانیت تباہی کے دہا نے پر کھڑی تھی۔ایسا لگتا تھا کہ جس تہذیب کو پروان چڑھنےمیں چار ہزار سال لگے تھے، اب وہ بکھرنا شروع ہو چکی تھی۔اس نازک وقت میں اللہ تعالیٰ نے اُنہی)لوگوں ( میں سے ایک نبی پیدا کیاجس نے انسانیت کو جہالت سے نکال کر ایمان کی روشنی میں لانا تھا۔
4. When Hazrat Muhammad (ﷺ) was thirty-eight years of age, he spent most of his time in solitude and meditation. In the cave of Hira, he used to retire with food and water and spent days and weeks in the remembrance of Allah Almighty.
4 ۔ جب حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کی عمر اڑتیس برس تھی تو آپ صلى الله عليه وسلم اپنا زیادہ تر وقت تنہائی اور مراقبہ ) غوروفکر( میں گزارا کرتے تھے۔آپ ﷺ غار حرا میں کھانا اور پانی لے کر کئی دنوں اور ہفتوں تک اللہ کی یاد میں گوشہ نشین رہتے تھے۔
5 ۔ انتظار کا وقت ختم ہوچکا تھا۔ آپ صلى الله عليه وسلم کا دل انسانیت کی گہری ہمدردی سے بھرا ہوا تھا۔آپ ﷺ
کی شدید خواہش تھی کہ بد اعتقادی،معاشرتی برائیوں ،ظلم اور نا
انصافی کے محور کو جڑھ سے اُکھاڑ پھینکیں۔ وہ لمحہ آ پہنچا تھا جب آپ صلى الله عليه وسلم کو نبوت عطا ہونا تھی۔ایک دن جب آپ ﷺ غارِ حِرا میں تھے،حضرت جبرائیلؑ آئے اور آپ ﷺ کو اللہ ذوالجلال کا مندرجہ ذیل پیغام پہنچایا۔
"پڑھ! اپنے رب)آقا( کےنام سے جس نے پیدا کیا: پیدا کیا انسان کو خون کے لوتھڑے )جمے ہوئے خون(سے :پڑھ کہ
تیرا رب بڑا ہی کریم ہےجس نے قلم کا استعمال سکھایا اور انسان کو وہ سکھایا جو وہ پہلے نہیں جانتا تھا"۔
5. The flow of the Divine message which continued for the next twenty-three years had begun, and the Holy Prophet (ﷺ ) had arisen to proclaim Oneness of God (Tauheed) and the unity of mankind. His mission was to destroy the nexus of superstition, ignorance, and disbelief and set up a noble conception of life and lead mankind to the Light of faith and divine bliss.
6 ۔ پیغام الٰہی کا وہ سلسلہ جو اگلے تئیس برس تک جاری رہا، شروع ہو چکا تھا اور نبی پاکﷺ اللہ کی واحدانیت اور انسانیت کے اتحاد کا باقاعدہ اعلان کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔آپ ﷺ کا مقصد توہم پرستی،جہالت اور بد اعتقادی کے سلسلے کو ختم کر کے زندگی کا ایک اچھا تصور قائم کرکے انسانیت کو ایمان کی روشنی اور نعمت خداوندی تک راہنمائی کرنا تھا۔
7. Since this belief was threatening their dominance in the society, the pagan Arabs started to mount pressure on the Holy Prophet (ﷺ) and his followers. They wanted them to renounce their cause and take to idol-worship ng. On one the occasion, they sent a delegation to the Holy Prophet’s kind and caring uncle, Abu Talib. They told him to restrain the Holy Prophet (ﷺ) from preaching Allah Almighty’s message or face their enmity. Finding himself in a dilemma, be sent for his nephew, and explained to him the situation. The Holy Prophet (ﷺ) answered with these memorable words:
“My dear uncle, if they put the sun in my right hand and the moon in my left, even then, I shall not abandon the proclamation of the Oneness of God (Tauheed). I shall set up the true faith upon the earth or perish in the attempt."
7 ۔ کیونکہ یہ عقیدہ معاشرے میں اُن)کفار( کی اجارہ داری کے لیے خطرہ بن رہا تھا۔ اس لیے عرب کے کفار نے نبی پاک ﷺ اور آپﷺ کے پیروکاروں پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا۔ وہ چاہتے تھے کہ آپ ﷺ اپنے مقصد کو ترک کر دیں اور دوبارہ بت پرستی اختیار کرلیں۔ ایک موقع پر اُنہوں نے نبی پاک ﷺ کے مہربان اور شفیق چچا ابو طالب کے پاس ایک وفدبھیجا۔ اُنہوں نے آپ ﷺ کے چچا کو کہا کہ وہ اپنے بھتیجے کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پھیلانے سے روکیں ورنہ اُن )کفار( کی دشمنی کا سامنا کریں۔ اپنے آپ کو دو طرفہ مصیبت میں پا کر اُنہوں نے اپنے بھتیجے کو بلا بھیجا اور تمام حالات سے آگا ہ کیا۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے ان یاد گار الفاظ سے جواب دیا: "میرے پیارے چچا جان ! اگر وہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تو میں پھر بھی اللہ تعالیٰ کی توحید کا اعلان کرنے سے باز نہیں آ ؤں گا۔میں زمین پر ایک سچا مذہب قائم کروں گا یا پھر اسی کوشش میں ختم ہو جاؤں گا"۔
8. The Holy Prophet's
(ﷺ) uncle was so impressed with his nephew’s firm determination that he replied:
“ Oh son of my brother, go thy way. No
one will dare touch thee. I shall never forsake thee.”
8 ۔ نبی پاک ﷺ کے چچا اپنے بھتیجے کے اس پختہ عزم سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اُنہوں نے جواب دیا:"میرے بھائی کے بیٹے ! اپنے راستے پر چلتے رہو، کسی کی جرات نہیں کہ وہ تمہیں ہاتھ لگائے۔ میں تمہا را ساتھ کبھی نہیں چھوڑوں گا"۔
"Muhammad ﷺ however, was responsible for both the theology of Islam and its main ethical and moral principles. In addition, he played a key role in proselytizing the new faith, and in establishing the religious practices"۔
In fact as the driving force behind the Arab conquests, he may well rank as the most influential pol licai léader ol all time. The Arab conquests of the seventh century have continued to play an important role in human h story, down to the present day
ایک مشہور تاریخ دان "مائیکل ہارٹ" کے الفاظ میں:
"اگرچہ اسلام کے عقائد اور اس کے مذہبی اور اخلاقی دونوں اصولوں کو قائم کرنے میں محمد ﷺ
ہی ذمہ دار ہیں۔ مزید یہ کہ نئے مذہب کی اشاعت اور مذہبی احکامات کو قائم کرنے میں آپ ﷺ نے بنیادی کردار ادا کیا"۔
دراصل عربوں کی فتوحات میں بطور اصلی طاقت )متحرک قوت ( ہونے کی وجہ سے آپﷺ کو تمام زمانوں کےانتہائی با اثر سیاسی راہنماکہنا درست ہے۔ساتویں صدی کی عرب فتوحات نے انسانی تاریخ میں بڑا اہم کردار ادا کرنا شروع کیا جو آج تک جاری ہے۔
This thorough transformation of man and society owed to the Holy prophet's ﷺ deep faith in Allah Almighty, to his love for humanity, and to the the nobility of his character. Indeed, his life is a perfect model to follow. In reply to a question
about the life of the Holy Prophet
(ﷺ)
Hazrat Ayesha (R. A)
said:
“His morals and character are an embodiment of the Holy Ouran.”
The final word about the savior of mankind goes to the Holy Quran:
“O! Prophet Surely, We have sent you as a witness, and as a bearer of good news and as a warner.
And as one inviting to Allah by His consent and a Light Giving torch.
(Quran, 33:45
-46)
10 ۔ انسانیت اور معاشرے کی اس طرح مکمل تبدیلی نبی پاک صلى الله عليه وسلم کے اللہ پر پختہ ایمان ،انسانیت سے پیاراور آپصلى الله عليه وسلم کے کردار کی اچھائی کی وجہ سے ہے۔دراصل ﷺ کی زندگی پیروی کرنے کے لیے ایک مکمل نمو نہ ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلى الله عليه وسلم کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں فرمایا۔
" آپ
کے اخلاق اور کردار قرآن پاک کا عملی
اظہار
ہیں"۔
انسانیت کے محافظ کے متعلق قرآنِ پاک کے حتمی الفاظ ہیں:
"اے نبیؐ! یقیناً ہم نے تمہیں گواہی دینے والا ،ڈرانے والا، اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ بنا کربھیجا ہے"
Please do not enter any spam link or nude content in the comment box.